اسلام میں کتنی عیدیں (جشن) ہیں
عید الفطر و عید الاضحی کے علاوہ یوم عرفہ کو وقوف عرفات کرنے والوں کیلئے یوم عید قرار دیا گیا مزید یہ کہ یوم الجمعہ اہل اسلام کیلئے ھفتہ وار اور چوتھی عید ہے
فرمان اقدس ہے
يَوْمُ الْجُمْعَة يَوْمُ الْعِيْد.
ترمذی، جلد : 5، ص : 250، رقم الحديث : 3043
یعنی جمعہ کا دن، عید کا دن ہے
یوں ہر سال کم از کم 48 جمعے، دو دن عید الفطر و اضحی اور ایک دن عرفہ کا بالمجموع 51 عیدیں ہوگئیں کسی سال یہ عدد ایام مہینہ کی کمی بیشی سے 53 تک جاپہنچتا ہے
یہ تمام شرعی عیدیں ہیں جن پر بلاخلاف تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے
اسکے علاوہ اب اہل اسلام میں عید میلاد النبی بھی ایک متفقہ جشن کی حیثیت اختیار کرچکی ہے
مزید یہ کہ جس دن نعمت حاصل ہو اس دن (جشن، خوشی یا عید) منانا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے اور یہ قرآن سے ثابت ہے
قرآن حکیم میں ہے : حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے (کھانوں کا) ایک دستر خوان نازل کر جو ہمارے پہلے اور پچھلے (سب کیلئے) عید بن جائے"۔[المائدہ 114]
یہاں قرآن نے لفظ عید کا استعمال فرمایا جس سے مراد جشن یا خوشی ہے معلوم ہوا کہ نزول نعمت کے دن خوشی/ عید یا جشن منانے کی اصل قرآن مجید میں موجود ہے، اسی قرآنی اُصول کے تحت اللہ کریم کی سب سے بڑی نعمت اور رحمت حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلّم کی دنیا میں تشریف آوری کے دن عید میلاد منانا شرعاً جائز و مستحسن ہے
اگر یہی قاعدہ دیگر انعام یافتگان کے ایام نعمت پہ لاگو کیا جائے تو مذموم کیوں؟ جبکہ اہلسنت کے ہاں اسی قاعدے سے یوم عرس ایک مستقل تہوار کی حیثیت اختیار کرچکا ہے
لفظ "عید" کو لفظ "عرس" سے بدل کر ہر عام ولی کی وفات کو وصل و دیدار کی خوشی یا عید کے طور پہ عرس منایا جاتا ہے حالانکہ اسلام میں بطور تہوار ایک بھی عرس ثابت نہیں
عرفا جشن/ عرس یا عید کے الفاظ، ایام مسرت کیلئے مستعمل ہیں شرعا عیدیں فطر و اضحی و عرفہ و جمعہ ہی ہیں لیکن عرفا مختلف توجیہات مسرت کی بناء ایام معین کرکے خوشی منانا متعدد طبقات اسلامیہ میں رائج چلا آرہا ہے پس جشن مولائیت مرتضی علیہ السلام میں چنداں حرج نہیں
تحریر و تلخیص :
علی عباس شاہ المعروف شاہ کرم جہانیاں حسینی جلالی خاکسار